مسرور کر گیا مجھے نغمہ وفا کا تھا
"انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا"
بیٹھے ہیں شرمسار وہ سر کو جھکائے اب
ان کا غرور لے اڑا جھونکا ہوا کا تھا
معراجِ لیل میں سبھی قُدسی تھے میزباں
ہر انجمن میں چرچا رسولِ خداﷺ کا تھا
جنت میں جس کے قدموں کی آہٹ سنی گئی
حبشی غلام وہ تو مِرے مصطفیٰﷺ کا تھا
تن پر ہمارے کپڑا، ہے منہ میں نوالہ جو
صدقہ یہ سب ملا ہمیں غارِ حرا کا تھا
کیڑے تھے جسم نوچتے لب پر گلہ نہ تھا
اللہ رے کیسا امتحاں صبر و رضا کا تھا
وحدت نصیب ہو خدا مسلم کو دہر میں
عرشِ بریں پہ نالہ یہ میری دعا کا تھا
مقتل میں پہنچا ساقی تو کہنے لگے سبھی
سب سرکشی میں ہاتھ اسی بے نوا کا تھا
اویس ساقی
No comments:
Post a Comment