Saturday, 30 July 2022

آہ کب لب پر نہیں ہے داغ کب دل میں نہیں

 آہ کب لب پر نہیں ہے، داغ کب دل میں نہیں

کون سی شب ہے کہ گرمی اپنی محفل میں نہیں

بزم کی کثرت سے اندیشہ مِرے دل میں نہیں

دل میں اس کی ہے جگہ میرے جو محفل میں نہیں

پنجۂ مژگانِ تر نے یہ اڑائیں دھجیاں

تار باقی ایک بھی دامانِ ساحل میں نہیں

خونِ ناحق کا ہمارے داغ مٹنے کا نہیں

تیغ میں ہو گا اگر دامانِ قاتل میں نہیں

پردہ دار چہرۂ یوسف نہیں ہے ہر نقاب

حسنِ لیلیٰ جلوہ گر ہر ایک محفل میں نہیں

نجد کا صحرا عجب صحرائے‌ وحشت خیز ہے

قیس کیا، لیلیٰ کو بھی آرام منزل میں نہیں

جس طرف جی چاہے گا میرا نکل جاؤں گا میں

سیکڑوں دروازے ہیں حلقے سلاسل میں نہیں

حد سے باہر پاؤں جو رکھتا ہے ہوتا ہے خراب

گھر میں جو راحت مسافر کو ہے منزل میں نہیں

ڈوبتے جاتے ہیں کیوں کر لوگ حیرت ہے مجھے

قدِ آدم آبِ بحر تیغِ قاتل میں نہیں

ہو گیا دہشت سے ایسا بسملوں کا خون خشک

ایک بھی دھبہ لہو کا تیغِ قاتل میں نہیں


اسیر لکھنوی

No comments:

Post a Comment