Saturday, 23 July 2022

لفظوں سے کھیلنے کا ہنر رائیگاں گیا

 لفظوں سے کھیلنے کا ہنر رائیگاں گیا

کیا پوچھتے ہو یار! سفر رائیگاں گیا

ویسے بھی اس سماج میں کچھ حیثیت نہ تھی

کیا رنج، کیا ملال، اگر رائیگاں گیا

سستے میں ایک سیٹھ نے محنت خرید لی

مفلس رہے کسان، ثمر رائیگاں گیا

انسان سب گزارتے خوشحال زندگی

کتنا حسین خواب تھا پر رائیگاں گیا

رات اور دن کے فرق کی تفریق مٹ گئی

آنکھوں میں انتظارِ سحر رائیگاں گیا

تم نے لڑے بغیر غلامی قبول کی

اچھے بھلے وجود پہ سر رائیگاں گیا

جن کے لیے مِرے انہیں افسوس تک نہیں

عابد! ہمارا خونِ جگر رائیگاں گیا


عابد حسین عابد

No comments:

Post a Comment