بڑھنے لگے ہیں وہم و گماں، خوش نہیں ہوں میں
یعنی کے اس کے بعد میاں خوش نہیں ہوں میں
موسیٰ! خدا کو میرا یہ پیغام دیجئے
دن کاٹ تو رہا ہوں یہاں خوش نہیں ہوں میں
کل شب میں اس کو ڈانٹ کے آیا ہوں بے سبب
دانتوں سے چیتھ لوں گا زباں خوش نہیں ہوں میں
اے غم! مِرے، میں اچھا اداکار بھی نہیں
کیسے ہنسوں وہاں پہ جہاں خوش نہیں ہوں میں
موقع ملا جو خود سے کبھی بات چیت کا
خود کو کہوں گا ابنِ فلاں خوش نہیں ہوں میں
موقع ملا جو خود سے کبھی بات چیت کا
خود کو کہوں گا ابنِ فلاں خوش نہیں ہوں میں
اسامہ سرفراز
No comments:
Post a Comment