دھوپ اور دِیے
صبح میری چائے کی پیالی میں بیدار ہوتی ہے
اور شام
میری انگلیوں سے لپٹ کر
ایش ٹرے میں ہوتی ہے
میں ان دنوں
راتوں کی خواہش نہیں کرتا
تیرے بغیر
سب کچھ زہر لگتا ہے
دھوپ اور دِیے
انتظار کی مسلسل جاگتی آنکھیں ہیں
میں
ایک دن دھوپ کو لپیٹ کر
کسی درخت کے سائے میں رکھ آؤں گا
اور یہ دِیے
تیرے آنگن میں بُجھا کر
چلا جاؤں گا
احسن سلیم
No comments:
Post a Comment