اینٹ سے اینٹ بجا دو، میرا دم گُھٹتا ہے
اب کوئی حشر اُٹھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
ان کو معلوم ہو اِنسان کی عظمت کیا ہے
ان کو انجیل پڑھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
آج تک تم نے مجھے مور و ملخ ہی سمجھا
مجھ کو انسان بنا دو، میرا دم گھٹتا ہے
ان سے ممکن ہی نہیں تازہ ہواؤں کا ورُود
ان فصیلوں کو گِرا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میں کہ صدیوں سے ہوں اس طوقِ غلامی کا اسیر
مجھ کو آزاد کرا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میں کہ صدیوں سے ہوں تہذیب کی نفرت کا شکار
اس تعصب کو مٹا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میری گردن پہ ہے صدیوں سے عدو کا پاؤں
میری گردن کو چُھڑا دو، میرا دم گھٹتا ہے
جبر سے کیا میری مر کر ہی خلاصی ہو گی
ظلم سے جان چھُڑا دو، میرا دم گھٹتا ہے
توڑ دو نسل پرستی کے صنم خانوں کو
ایسی تخصیص مِٹا دو، میرا دم گھٹتا ہے
ان کو شاید ہو مسیحا کی اذیت محسوس
ان کو تثلیث دِکھا دو میرا، میرا دم گھٹتا ہے
دیکھ لیں لوگ کہ گورے ہیں کہ کالے وحشی
میری تصویر دکھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میں تو مجرم ہوں عدالت میں مجھے پیش کرو
مجھ کو تم خود نہ سزا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میری انجیل کے اوراق میں تدفین کرو
میری تربت پہ لکھا دو، میرا دم گھٹتا ہے
میرا اظہارِ تکلم میری خاموشی ہے
میرا پیغام سُنا دو، میرا دم گھٹتا ہے
ایسا مسکن کہ جہاں سانس ہو لینا مشکل
ایسے مسکن کو جلا دو، میرا دم گھٹتا ہے
اس سے بڑھ کر تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا اسلم
ساری دنیا کو بتا دو، میرا دم گھٹتا ہے
اسلم گورداسپوری
No comments:
Post a Comment