پرشاد بول بانٹ کے چورن گیا کوئی
کوئی سخی تو حضرت فن بن گیا کوئی
بولا کوئی زمیں پہ بنا دوں گا میں بہشت
بربادیوں میں جھونک نشمین گیا کوئی
ہے حوصلے کی بات، بڑی بات ہے جناب
نقاد اپنا آپ ہی گر بن گیا کوئی
لفظوں کے جوڑ توڑ کیے، شعر بُن لیے
اپنے تئیں خدا کا ولی بن گیا کوئی
بزمِ مدح سجی تو کئی سر کے بل گئے
اس بزم میں بھی طوعاً و کرہاً گیا کوئی
اک دہنِ خوش جمال سے نکلا جو چٹکلہ
دردِ جگر اٹھا کہیں واہ بن گیا کوئی
بیداریاں تھیں خواب تھے زادِ سفر تو تھا
ان کو بھی بیچ کھا کے بنا دھن گیا کوئی
ثمن ابرار
No comments:
Post a Comment