عجیب وحشت ہے
عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
وہی پرانا سا روگ کوئی
وہی پرانی سی کیفیت ہے
وہی سلونا سا ذائقہ ہے ان آنسوؤں کا
وہی تو رنگت ہے
اتنے سالوں میں رنگ بدلا نہ رنج بدلا
وگرنہ دکھ تو نیا نیا ہے
یہ زخم کتنا ہرا بھرا ہے
عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
میں رہگزر ہوں
گزرنے والے سبھی مسافر
میں اک جگہ پر رکی ہوئی ہوں
یہاں سے رستے نکل رہے ہیں
مِری رفاقت نگل رہے ہیں
بچھڑنے والوں کے غم کا دیمک
مجھے تو اندر سے کھا رہا ہے
عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
خوش بخت بانو
No comments:
Post a Comment