Sunday 31 July 2022

عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے

 عجیب وحشت ہے


عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے

وہی پرانا سا روگ کوئی

وہی پرانی سی کیفیت ہے

وہی سلونا سا ذائقہ ہے ان آنسوؤں کا

وہی تو رنگت ہے

اتنے سالوں میں رنگ بدلا نہ رنج بدلا

وگرنہ دکھ تو نیا نیا ہے

یہ زخم کتنا ہرا بھرا ہے

عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے

میں رہگزر ہوں

گزرنے والے سبھی مسافر

میں اک جگہ پر رکی ہوئی ہوں

یہاں سے رستے نکل رہے ہیں

مِری رفاقت نگل رہے ہیں

بچھڑنے والوں کے غم کا دیمک 

مجھے تو اندر سے کھا رہا ہے

عجیب وحشت ہے جس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے


خوش بخت بانو

No comments:

Post a Comment