انحصار ذات
روشنی ہوں، روشن ہوں
اپنا آپ ظاہر ہوں
اپنا آپ باطن ہوں
میں ہی جیسے سورج ہوں
مجھ میں لو ہے سورج کی
روشنی کا ہالہ ہوں، عشق کا پیالہ ہوں
آپ اپنا درماں ہوں، آپ ہی حوالہ ہوں
تیرگی بھی ہوں میں ہی، میں ہی تو اجالا ہوں
گردشوں کا پالا ہوں
چاندنی کی ٹھنڈک ہوں
نور ہوں زمانوں کا
اور میں زمانہ ہوں
مجھ سے ہی زمانہ ہے
مجھ میں کوئی بستا ہے
مجھ میں ہی ٹھکانا ہے، اور میں ٹھکانا ہوں
خود سبب ہوں ہونے کا، خود ہی اک بہانہ ہوں
میں ہی تو حقیقت ہوں
میں ہی اک فسانہ ہوں
اک قیام ہے مجھ میں، میں ہی تو روانہ ہوں
میں خرد پہ نازاں اور، میں ہی تو دوانہ ہوں
خود میں بولتا ہوں میں، تجھ میں بولتا ہوں میں
راز ہوں زمانے کا، خود کو کھولتا ہوں میں
خود ہی گم گھپاؤں میں، خود پہ آشکارا ہوں
خود کو ہی گوارا ہوں
شہر میں ہوں گاؤں میں
میں ہوں ان ہواؤں میں
ایک زخم دل میں ہے
ایک زخم پاؤں میں
اس لیے لپیٹا ہے، خود کو ان رداؤں میں
راگنی ہوں ندیا کی،چاندنی ہوں صحرا کی
درد ہوں سمندر کا، الپسرا کا سودائی
دل ہوں اک پاگل کا، گھپ اندھیرا جنگل کا
قصہ ایک دلدل کا
میں ہی آنکھ کا پانی، میں ہوں شور بادل کا
خود سے خوف کھاتا ہوں
خود پہ مسکراتا ہوں، لوٹ پوٹ جاتا ہوں
مجھ میں میرا مسکن ہے
مجھ سے میرا ساون ہے
میں اگر نہیں ہوں تو، تُو بھی پھر نہیں ہے نا
زندگی نہیں ہے نا
روشنی نہیں ہے نا
آگہی نہیں ہے نا
راگنی نہیں باقی، کوئی لے نہیں باقی
میں اگر نہیں ہوں تو، کوئی شے نہیں باقی
امان اللہ خان
No comments:
Post a Comment