زخم اُکتا کے کئی بار ہیں رونا بُھولے
دنیا، دنیا ہے یہ نشتر نہ چبھونا بھولے
تیرنا ہم کو نہیں آئے گا جب یہ طے ہے
آؤ منت کریں دریا سے، ڈبونا بھولے
ایسے مصروف ہوئے آج سبھی گھر کے مکیں
جہاں رکھا تھا مجھے گھر کا وہ کونا بھولے
ایک سے ایک لبھانے کو ہے بازار میں شے
پھر کوئی کیسے نہیں ٹوٹا کھلونا بھولے
تیرے انداز حسیں، دنیا کہاں لے آئے
تیرے بھی ہو نہ سکے، اپنا بھی ہونا بھولے
گر کبھی چاہا کوئی بات بنا کر لکھنا
لفظ باغی ہوئے شعروں میں سمونا بھولے
توڑا جب جب ہے زمانے نے کوئی خواب مِرا
ہم نیا خواب نہ آنکھوں میں پرونا بھولے
یاد جب آتے ہیں وہ لوگ پرانے ابرک
آنکھ ظالم مِرا دامن نہ بھگونا بھولے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment