مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا
مِرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں
کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا
جدا ہو گی کسک دل سے نہ اس کی
جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے
وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا
پئے جاتا تھا انور آنسوؤں کو
عجب اس شخص کو چسکا لگا تھا
انور مسعود
No comments:
Post a Comment