Tuesday, 26 July 2022

جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے

زعفرانی کلام

تھرڈ ڈویژن


جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے

میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے

پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے

ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے

کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا

میرا بھلا ہو کچھ مِرے ماں باپ کا بھلا

جاتا ہے جس جگہ بھی کوئی تھرڈ ڈویژنر

کہتے ہیں سب کہ آ گیا تو کس لیے ادھر

تُو چل یہاں سے تیری نہ ہو گی یہاں گُزر

لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر ہوں میں، مگر

یا رب! زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے

ہر شخص مجھ کو آنکھ دکھاتا ہے کس لیے

میں پاس ہو گیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں

تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں

جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں

میں خاک میں مِلا ہوا مِٹّی کا تیل ہوں

اور یونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائنری

صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری

اخبار میں نے دیکھا تو مجھ پر ہوا عیاں

ہوتے ہیں پاس وہ بھی نہ دیں جو کہ امتحاں

یعنی کہ آنریری بھی ملتی ہیں ڈگریاں

میں جس زمیں پہ پہنچا وہیں پایا آسماں

ہے آسماں کی گردشِ تقدیر میرے ساتھ

ڈگری ہے اک گناہوں کی تحریر میرے ساتھ

گر ہو سکے تو مانگ لوں اک عُمر کو اُدھار

اور امتحان جس کا نہیں کوئی اعتبار

اس امتحاں کی بازی لگاؤں گا بار بار

کہتے ہیں لوگ اس کو یہ مچھلی کا ہے شکار

یہ امتحان مچھلی پھنسانے کا جال ہے

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے


ضمیر جعفری

No comments:

Post a Comment