وسطی عمر کی ڈھارس
کہنے کو تو
نیند بھی اک جگراتا ہے
آنکھوں کے پٹ بند ہیں پھر بھی
ہم خاکی دیواریں توڑ کے
کسی زمیں پر کسی زماں تک
جا سکتے ہیں
تاروں کے انگارے لے کر
ٹھنڈے دل دہکا سکتے ہیں
اور اپنا دل
کس یخ بستہ رقبے کے کونوں
کھدروں میں رکھ آئے ہیں
کچھ کہہ نہیں سکتے
کہنے کو تو سب اچھے ہیں
دفتر، افسر اور ہم منصب
جن کی جوش بھری باتوں میں
خواب آور رنگینی ہے
سب کہتے ہیں، دن بدلیں
ہم بدلیں گے
روز و شب کا علم نہیں
پر دیکھتے دیکھتے
بیس کیلنڈر بدل گئے ہیں
کہنے کو تو
کمروں اور سینوں
میں نور بھرا ہے
اپنا گھر اپنی جنت یے
جس کے باغ میں پیڑ زمرد جیسے
پھل نیلم کی صورت ہیں
کمروں، پیڑوں، جنت کے رنگیں
دروازوں سے کچھ ہٹ کر
یہ سرخی یہ منطرنامہ
زرا توقف سے دیکھیں تو
ہر کمرے ہر سینے میں گھبراہٹ ہے
اور جس باغ کا ذکر ہوا ہے
اس میں کچھ اکتاہٹ ہے
فرخ یار
No comments:
Post a Comment