Thursday, 28 July 2022

کہنے کو تو نیند بھی اک جگراتا ہے

 وسطی عمر کی ڈھارس


کہنے کو تو

نیند بھی اک جگراتا ہے

آنکھوں کے پٹ بند ہیں پھر بھی

ہم خاکی دیواریں توڑ کے

کسی زمیں پر کسی زماں تک

جا سکتے ہیں

تاروں کے انگارے لے کر

ٹھنڈے دل دہکا سکتے ہیں

اور اپنا دل

کس یخ بستہ رقبے کے کونوں

کھدروں میں رکھ آئے ہیں

کچھ کہہ نہیں سکتے

کہنے کو تو سب اچھے ہیں

دفتر، افسر اور ہم منصب

جن کی جوش بھری باتوں میں

خواب آور رنگینی ہے

سب کہتے ہیں، دن بدلیں

ہم بدلیں گے

روز و شب کا علم نہیں

پر دیکھتے دیکھتے

بیس کیلنڈر بدل گئے ہیں

کہنے کو تو

کمروں اور سینوں

میں نور بھرا ہے

اپنا گھر اپنی جنت یے

جس کے باغ میں پیڑ زمرد جیسے

پھل نیلم کی صورت ہیں

کمروں، پیڑوں، جنت کے رنگیں

دروازوں سے کچھ ہٹ کر

یہ سرخی یہ منطرنامہ

زرا توقف سے دیکھیں تو 

ہر کمرے ہر سینے میں گھبراہٹ ہے

اور جس باغ کا ذکر ہوا ہے

اس میں کچھ اکتاہٹ ہے


فرخ یار 

No comments:

Post a Comment