Saturday 23 July 2022

ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا

ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا

جو دسترس میں ہماری ہنر نہیں ہوتا

میں روز اس سے یہیں ہمکلام ہوتا ہوں

درون روح کسی کا گزر نہیں ہوتا

جلا دئیے ہیں کسی نے پرانے خط ورنہ

فضا میں ایسا تو رقصِ شرر نہیں ہوتا

محبتوں کے کئی اسم میں نے پڑھ ڈالے

عجب طلسم ہے وا اس کا در نہیں ہوتا

اگر میں شب کی سیاہی نہ چیر کر نکلوں

کوئی اجالا مِرا ہمسفر نہیں ہوتا

کسی کے نقش قدم کی تھی جستجو ورنہ

میں اس طرح تو سخن در بدر نہیں ہوتا


عبدالوہاب سخن

No comments:

Post a Comment