ہمیں نصیب کوئی دیدہ ور نہیں ہوتا
جو دسترس میں ہماری ہنر نہیں ہوتا
میں روز اس سے یہیں ہمکلام ہوتا ہوں
درون روح کسی کا گزر نہیں ہوتا
جلا دئیے ہیں کسی نے پرانے خط ورنہ
فضا میں ایسا تو رقصِ شرر نہیں ہوتا
محبتوں کے کئی اسم میں نے پڑھ ڈالے
عجب طلسم ہے وا اس کا در نہیں ہوتا
اگر میں شب کی سیاہی نہ چیر کر نکلوں
کوئی اجالا مِرا ہمسفر نہیں ہوتا
کسی کے نقش قدم کی تھی جستجو ورنہ
میں اس طرح تو سخن در بدر نہیں ہوتا
عبدالوہاب سخن
No comments:
Post a Comment