دن تو سب ہی گزر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
جان سے پیارے مر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ان کا ملنا، ان سے بچھڑنا، یاروں کے اغیار کے طعنے
زخم تو سارے بھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
ماضی کی ہر بزم سے ہم نے، مستقبل کے خواب سمیٹے
لیکن خواب بکھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
کتنے نعرے، کیسے نظریے، اٹھتے ہیں سیلاب کی صورت
پھر سیلاب اتر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
راہِ سفر کا ایک اک منظر پاؤں پکڑ لیتا ہے، مگر
ہر پھر آخر گھر جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں
زیست کی ہر منزل پر حاطب، ملتے ہیں خوش ذوق احباب
یہ احباب کدھر جاتے ہیں؟ یاد میں باقی رہ جاتی ہیں
احمد حاطب صدیقی
No comments:
Post a Comment