Saturday 30 July 2022

گھونسلہ باقی رہے گا نہ یہاں پر تنکے

 گھونسلہ باقی رہے گا نہ یہاں پر تنکے

چل تجھے عشق کے نقصان بتاؤں گن کے

تجھ کو سب درد اکیلے ہی اٹھانے ہوں گے

دیکھ یہ لوگ تو ساتھی ہیں فقط دو دن کے

یار کب وصل کی صورت ہے کوئی بھی، لیکن

یار بھگتان بھگتنے ہیں اسی لیکن کے

میرے دشمن ہیں تو تو بھی نہ تعلق رکھنا

نام انگلی پہ میں گنوانے لگی جن جن کے

اس کی ہے عمر محبت کے لیے نا موزوں

چھین لے وقت نہ سب رنگ مِرے کمسن کے

اب تو ممکن بھی رسائی میں نہیں ہوتے ہیں

اور تو خواب سجا بیٹھی ہے ناممکن کے

آج کی شام نے دل میں بھی اداسی بھردی

آج تو شعر سنا فیض کے یا محسن کے


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment