گھونسلہ باقی رہے گا نہ یہاں پر تنکے
چل تجھے عشق کے نقصان بتاؤں گن کے
تجھ کو سب درد اکیلے ہی اٹھانے ہوں گے
دیکھ یہ لوگ تو ساتھی ہیں فقط دو دن کے
یار کب وصل کی صورت ہے کوئی بھی، لیکن
یار بھگتان بھگتنے ہیں اسی لیکن کے
میرے دشمن ہیں تو تو بھی نہ تعلق رکھنا
نام انگلی پہ میں گنوانے لگی جن جن کے
اس کی ہے عمر محبت کے لیے نا موزوں
چھین لے وقت نہ سب رنگ مِرے کمسن کے
اب تو ممکن بھی رسائی میں نہیں ہوتے ہیں
اور تو خواب سجا بیٹھی ہے ناممکن کے
آج کی شام نے دل میں بھی اداسی بھردی
آج تو شعر سنا فیض کے یا محسن کے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment