نگر وہ تیرا کہاں ہے، تِری گلی کیا ہے
جہاں وجود ہو تیرا، وہاں پری کیا ہے
نہ پھول کوئی بشاشت میں تیرے رخ جیسا
گلاب کیا ہے، کنول کیا ہے اور کلی کیا ہے
تِرے ہی رخ سے روشن ہے تابشِ مہ بھی
ہو نور جو تِرے چہرے کا چاندنی کیا ہے
اگر نہ ٹپکے لہو عاشقی میں آنکھوں سے
یہ رونا کیا ہے تِرا، آنکھوں میں نمی کیا ہے
میں تیرے حسن کے نغمے سناتا پھرتا ہوں
طیور کے وہ ترانوں کی نغمگی کیا ہے
بے نور ہو گیا مہتاب سامنے تیرے
فرشتہ ہو تو بہک جائے، آدمی کیا ہے
تُو ہی تو میری غزل ہے، میں تیرا شاعر ہوں
کسی کو کیا پتہ ہے، تیری شاعری کیا ہے
اداؤں پہ تِری دیوان لکھ دیا میں نے
امیر پوچھے کوئی مجھ سے راگنی کیا ہے
امیر فاروق آبادی
No comments:
Post a Comment