Sunday, 31 July 2022

آہ جو دل پہلے تھا پہلو میں اب وہ دل نہیں

 نالۂ یتیم


آہ جو دل پہلے تھا پہلو میں اب وہ دل نہیں

شمع مردہ رہ گئی جب درخور محفل نہیں

اور حیات جاودانی مرگ کے قابل نہیں

طالبِ حق حُبِ دنیا پر کبھی مائل نہیں

میں تِرا دیوانہ ہوں دنیا میں گو فرزانہ ہوں

ہاں ازل سے میں فدائے طلعت جانانہ ہوں

عشق کیا آیا حواس و ہوش سب جانے لگے

خون دل پی پی کے ہم لخت جگر کھانے لگے

بادۂ توحید سے پھر نشے میں آنے لگے

کیفیت میں سارے راز معرفت پانے لگے

میرا یہ سینہ نہیں گنجینۂ اسرار ہے

اور دل پہلو میں جو ہے خانۂ دلدار ہے

خلقت انساں ہوئی ہے عشق یزداں کے لیے

ہے مسیحا ذات اس کی خاص درباں کے لیے

وحشت دل آج ہے چاک گریباں کے لیے

زُلف و رُخ دونوں بنے ہندو مسلماں کے لیے

رات دن ہنگامۂ ہستی میں ہیں مصروف ہم

زُلف کے سودائیوں میں آج ہیں معروف ہم

یہ دل خوباں طلب خو کردۂ حسرت نہیں

عاشقِ درد آشنا دلدادۂ راحت نہیں

دامِ الفت سے ہو چھٹکارا کوئی صُورت نہیں

حق سے دل کو ہے تعلّق غیر سے نسبت نہیں

ہے غبارِ خاطرِ عارف محبت غیر کی

کب موّحد کو نظر آتی ہے صورت غیر کی

باغ عالم ہیں نہیں چلتی مسرت کی ہوا

دیکھ تو چشم بصیرت تو ذرا اب کر کے وا

اس فنا صورت جہاں کا ہو گیا نقشا نیا

ایک اس کی ذاتِ واحد ہے ہمارا رہنما

کوئی مغموم اس جہاں میں کوئی شر میں کام ہے

بر سر بیداد ہر دم چرخ نیلی فام ہے

کون ہے جس کو بتاؤں اپنا یہ درد نہاں

رنج و غم سے مجھ کو ملتی ہی نہیں فرصت یہاں

حسرت و ارماں ہیں دل میں رات اور دن میہماں

ہے فلک آمادہ مجھ سے تاکہ خواب امتحان

مجرم اظہار غم ہوں رحم کر مجھ پر خدا

عجز گویائی ہے گویا میرے دل کا مدعا

شعلۂ عشق اٹھ کے دل کی آگ کو بھڑکا گیا

استخواں سب جل گئے، منہ کو کلیجہ آ گیا

آتش پنہاں کا جب سر پر دھواں سب چھا گیا

ایک دم میں یہ کرشمے اپنے وہ دکھلا گیا

کر دیا بے خانماں اور گھر سے بے گھر کر دیا

سینۂ پُر داغ کو ہم رنگِ مجمر کر دیا


سر کشن پرشاد شاد

No comments:

Post a Comment