Wednesday, 27 July 2022

اپنی دھن میں بہتے ہوئے دریاؤں کو زخمایا ہے

 اپنی دُھن میں بہتے ہوئے دریاؤں کو زخمایا ہے

شام ڈھلی تو ملاحوں نے گیت فراق کا گایا ہے

جب دنیا کے سب سوداگر دنیا داری کر رہے تھے

انشا جی سر پیٹ رہے تھے؛ مایا ہے سب مایا ہے

سورج جاتے جاتے چھوڑ گیا تھا اندھی لڑکی کو

ہم نے شب کا ماتھا چوم کے پہلا دِیپ جلایا ہے

ایک خدا کو ماننے والے اک رستے پہ چلے ورنہ

تیرے گھر تک دوراہا بھی، چوراہا بھی آیا ہے

اس کے خوف اور غربت کا اندازہ کیسے ہو راکب

جس نے آخری تیلی سے آدھا سگریٹ سُلگایا ہے


راکب مختار

No comments:

Post a Comment