اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے
اس میری تباہی میں تِرا نام نہ آئے
یہ درد ہے ہمدم! اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے
کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہِ وفا کے
شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے
لگتا ہے کہ پھیلے گی شب غم کی سیاہی
آنسو مِری پلکوں پہ سرِ شام نہ آئے
میں بیٹھ کے پیتا رہوں بس تیری نظر سے
ہاتھوں میں کبھی میرے کوئی جام نہ آئے
بیٹھا ہوں دِیا گھر کا جو ناصر میں جلا کے
ایسا نہ ہو پھر وہ دلِ ناکام نہ آئے
حکیم ناصر
No comments:
Post a Comment