Sunday 31 July 2022

ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے

 ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے

چادر کو اپنی دیکھ کے ہم خود سمٹ گئے

جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے

اب لفظ مل گئے تو مِرے ہاتھ کٹ گئے

صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے

جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے

بیٹھے تھے جب تو سارے پرندے تھے ساتھ ساتھ

اڑتے ہی شاخ سے کئی سمتوں میں بٹ گئے

اب ہم کو شفقتوں کی گھنی چھاؤں کیا ملے

جتنے تھے سایہ دار شجر سارے کٹ گئے

ساغر! کسی کو دیکھ کے ہنسنا پڑا مجھے

دنیا سمجھ رہی ہے مِرے دن پلٹ گئے


ساغر اعظمی​

No comments:

Post a Comment