Wednesday 27 July 2022

بسمل پڑا تھا مرگ پہ طالب دعا کا تھا

 بسمل پڑا تھا مرگ پہ طالب دعا کا تھا

وحشت زدہ تھا پھر بھی حامی وفا کا تھا

بلبل اڑا کے لایا جو فصلِ بہار سے

تیری ہی یاد کا اک جھونکا ہوا کا تھا

غنچے کھلے کھلے تھی بوئے نگار ہر دم

سارا کرم چمن پر یہ بادِ صبا کا تھا

ان پر کڑی چپ کے در و بام سجانے والے

واں منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا کا تھا

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

"انداز ہو بہو تِری آواز پا کا تھا"


رضا حیدری

No comments:

Post a Comment