بسمل پڑا تھا مرگ پہ طالب دعا کا تھا
وحشت زدہ تھا پھر بھی حامی وفا کا تھا
بلبل اڑا کے لایا جو فصلِ بہار سے
تیری ہی یاد کا اک جھونکا ہوا کا تھا
غنچے کھلے کھلے تھی بوئے نگار ہر دم
سارا کرم چمن پر یہ بادِ صبا کا تھا
ان پر کڑی چپ کے در و بام سجانے والے
واں منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا کا تھا
کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
"انداز ہو بہو تِری آواز پا کا تھا"
رضا حیدری
No comments:
Post a Comment