Sunday 24 July 2022

فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں

 فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں

الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں

ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں

محسوس کر رہا ہوں بے چارگی وطن میں

ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا

سوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں

اے پاسبانِ گُلشن! تجھ کو خبر نہیں ہے

شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں

اے یار تیرے غم سے فُرصت اگر ملی تو

تبدیلیاں کروں گا اس عالمِ کُہن میں

دیکھا ہے میں نے دل کی بیتابیوں کا منظر

اک ٹوٹتی کلی میں اک ڈوبتی کرن میں

اس درجہ درد افشاں غنچوں کی داستاں تھی

کانٹے سے چُبھ رہے ہیں احساس کے بدن میں

شاخوں پہ ان کے ساغر گیسو مہک رہے ہیں

ترتیب پا رہی ہیں رنگینیاں چمن میں ​


ساغر صدیقی​

No comments:

Post a Comment