فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں
الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں
ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں
محسوس کر رہا ہوں بے چارگی وطن میں
ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا
سوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں
اے پاسبانِ گُلشن! تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں
اے یار تیرے غم سے فُرصت اگر ملی تو
تبدیلیاں کروں گا اس عالمِ کُہن میں
دیکھا ہے میں نے دل کی بیتابیوں کا منظر
اک ٹوٹتی کلی میں اک ڈوبتی کرن میں
اس درجہ درد افشاں غنچوں کی داستاں تھی
کانٹے سے چُبھ رہے ہیں احساس کے بدن میں
شاخوں پہ ان کے ساغر گیسو مہک رہے ہیں
ترتیب پا رہی ہیں رنگینیاں چمن میں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment