سانس لیتے ہوئے ڈر جاتے ہو، حد کرتے ہو
سانس رکتی ہے تو مر جاتے ہو حد کرتے ہو
جب بھی آتے ہو تو خوشبو کی طرح آتے ہو
پھر ہواؤں میں بکھر جاتے ہو، حد کرتے ہو
تم تو ویسے ہی ستاروں سے حسیں ہو، لیکن
اس پہ تم اور سنور جاتے ہو، حد کرتے ہو
بن کے بادل تو چلے آتے ہو صحرا کی طرف
پھر بنا برسے گزر جاتے ہو، حد کرتے ہو
گرتے قطرے کہیں ہونٹوں کو نہ چھولیں ٹھہرو
ایسی بارش میں بھی گھر جاتے ہو، حد کرتے ہو
اب جو نکلے ہو تو آنکھوں سے تعلق کیسا
یونہی پلکوں پہ ٹھہر جاتے ہو، حد کرتے ہو
یاسین ضمیر
No comments:
Post a Comment