Saturday 30 July 2022

سبھی یہاں ہیں دریدہ‌ دامن سبھی کا اب حال ایک سا ہے

 سبھی یہاں ہیں دریدہ‌ دامن،۔ سبھی کا اب حال ایک سا ہے 

اب ایسی صورت میں کس سے پوچھیں یہ کیا بنا ہے یہ کیا ہوا ہے 

کچھ اس طرح سے کبھی ہوا تھا سکوت دار و رسن کا عالم 

نہ کوئی دیوانہ سر بکف ہے، نہ کوئی وحشی ڈٹا ہوا ہے 

مرض یہ کیا ہے کہ جس کے ڈر سے تمام دنیا لرز رہی ہے 

یہ کیا وبا ہے کہ جس کے آگے ہر ایک کا سر جھکا ہوا ہے 

وہ آسمانوں پہ جانے والے، وہ چاند سے مٹی لانے والے 

نہ جانے اب وہ کہاں گئے ہیں، ہر ایک گھر میں چھپا ہوا ہے 

وہ سب میزائل، یہ سارے ایٹم، بس اک کرونا کی مار نکلے 

اب ایسے عالم میں دیکھ لیں سب کہ چین کیسے ڈٹا ہوا ہے 

یہ واعظوں کے تمام خطبے، ہماری مشکل کا حل نہیں ہیں 

اب اس کو خود ہم ہی حل کریں گے، یہ مسئلہ جو بنا ہوا ہے 

نہ کوئی بھی ہم پہ پہرہ زن ہے کہ ہم کہیں آئیں اور نہ جائیں 

ہر ایک انسان اپنے گھر میں، خود اپنا قیدی بنا ہوا ہے 

کوئی بڑا ہو کہ یا ہو چھوٹا، کوئی گدا ہو کہ بادشہ ہو 

اس ابتلا کا کمال یہ ہے کہ سب کو یکساں کیا ہوا ہے 

سوائے خاموش چاند تاروں کے ان خلاؤں میں کچھ نہیں ہے 

یہ زندگی کی ہی رونقیں ہیں، کہ جن سے میلہ سجا ہوا ہے 

یہ کیا غضب ہے کہ مدتوں سے خزاں ہی گلشن میں خیمہ زن ہے 

جو موسمِ گل کا کارواں تھا، وہ کارواں کیوں رکا ہوا ہے 

ہمارا ذوقِ سخن ہے جاری، اسے کسی شے کا ڈر نہیں ہے 

نہ حسن ہم سے الگ ہوا ہے، نہ عشق ہم سے جدا ہوا ہے 

خدا تو ان سے خفا ہے اسلم! جو اس کے قانون توڑتے ہیں 

وگرنہ، ہم ایسے بے بسوں سے خدا بھلا کب خفا ہوا ہے 


اسلم گورداسپوری

No comments:

Post a Comment