Sunday, 24 July 2022

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

 گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے

خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ؟

دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا

رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی

اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان

نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا

دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے


مرزا غالب​

No comments:

Post a Comment