بیوہ اور برسات
چھائی ہوئی ہے تیرگی اس پہ یہ منہ کی ہے جھڑی
رات کٹے گی کس طرح، حشر نما ہے ہر گھڑی
دیکھتی ہے سُوئے فلک ہائے ترس ترس کے آنکھ
اور مجھے ڈبوئے گی آج برس برس کے آنکھ
گریہ بے اثر مِرا، اپنا اثر دکھائے کیا؟
دل کی لگی بُجھائے کیا دل کی لگی بُجھائے کیا
آج یہ ابر کی گرج خوب رُلائے گی مجھے
لوں گی ہزار کروٹیں نیند نہ آئے گی مجھے
سینے میں دل کباب ہے مجھ سے ہو صبر کس طرح
ایک بلا شباب ہے، مجھ سے ہو جبر کس طرح
کوند رہی ہیں بجلیاں، ابر کا زور شور ہے
میں ہوں کہ بے قرار ہوں تم ہو کہ خواب گور ہے
میں نے سہے ہیں دُکھ پہ دُکھ عمر کٹے گی یاس میں
طبع کو انتشار ہے، اور خلل حواس میں
ضبط کہاں سے لاؤں میں سرد ہوا کو دیکھ کر
جان پہ ہے بنی ہوئی شب کی فضا کو دیکھ کر
برق کی تیغ ہے ستم، سینہ فگار کیوں نہ ہو
زخم جگر ہرے ہوئے، یادِ بہار کیوں نہ ہو
رات کی بات یاد ہے، رات کا پیار یاد ہے
نیند بھری وہ چشمِ مست، اس کا خمار یاد ہے
ہے یہ جنازۂ شباب یا کہ مِرا پلنگ ہے؟
آہ تمہیں خبر نہیں جان سے کوئی تنگ ہے
کیا ہی وہ خوش نصیب ہیں راج ہے اور سہاگ ہے
موتیوں سے بھری ہے مانگ رنگ ہے اور راگ ہے
کیا ہی وہ خوش نصیب ہیں جن کے لیے سنگار ہے
آہ مِرا شباب، حسن رنج سے ہمکنار ہے
کُوک رہی ہیں کوئلیں جھوم رہی ہیں ڈالیاں
پاپی پپیہا اس طرف بول رہا ہے پی کہاں
پی ہے کہاں بتاؤں کیا قصۂ غم سناؤں کیا
موت بھی راہبر نہیں پی کا سراغ پاؤں کیا
اف یہ کلیجے کی دھڑک ہائے یہ آہ و زاریاں
خلق ہے میٹھی نیند میں مجھ کو ہیں بے قراریاں
جوش ہے پائمال غم پست ہیں جی کے حوصلے
رسم و رواج کا اثر مٹ رہا ہے ولولے
ثاقب کانپوری
No comments:
Post a Comment