Friday, 29 July 2022

پہلے تو شہر بھر میں مثال آئینے ہوئے

پہلے تو شہر بھر میں مثال آئینے ہوئے

پھر گرد سے سراپا سوال آئینے ہوئے

چہرہ چُھپائے پھرتا ہے گہرے نقاب میں

اک شخص کو تو لَو کی مثال آئینے ہوئے

ہم کو سزا ملی کہ اُجالے تھے آئینے

سو اپنی جاں پہ سارا وبال آئینے ہوئے

پھر یوں ہوا کہ ضبط کی صورت نہیں رہی

اور شہرِ بے نوا کے غزال آئینے ہوئے

جن کے سبب سے ہم ہوئے معتوب شہر میں

اک وقت آ گیا وہ خیال آئینے ہوئے

وہ درد جی اُٹھا کہ گریباں تھے تار تار

وہ رُت اُمڈ پڑی کہ نہال آئینے ہوئے


خالد محمود ذکی

No comments:

Post a Comment