یہ ملک و قوم کی جہد و بقاء کو مار دیتے ہیں
یہ وہ رہزن ہیں جو ہر رہنما کو مار دیتے ہیں
یہ ظالم لوگ ہیں بد صورتی سے عشق کرتے ہیں
یہ ہر خوش شکل کو ہر خوش ادا کو مار دیتے ہیں
یہ سب ہی غوغۂ زاغ و زغن کا شوق رکھتے ہیں
یہ ہر اک طائرِ نغمہ سرا کو مار دیتے ہیں
بہت ہی زعم ہے ان وحشیوں کو اپنی طاقت کا
یہ ہر مسکین کو ہر بے نوا کو مار دیتے ہیں
جو ان سے مختلف ہوں وہ انہیں اچھے نہیں لگتے
یہ ہر اک خُوگر صِدق و صفا کو مار دیتے ہیں
ہمارے دِین کو بدنام کرنا ان کا پیشہ ہے
یہ سب رحم و رضا عفو و جزا کو مار دیتے ہیں
یہ جو نقشِ قدم بھی منزلوں کی سمت جاتا ہو
یہ اس نقشِ قدم، نقشِ پا کو مار دیتے ہیں
یہ جن کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا
یہ ہر مقصد کو ہر اک مُدعا کو مار دیتے ہیں
یہ وہ مخلوق ہے انسانیت سے جن کو نفرت ہے
یہ اہلِ درد کو، اہلِ وفا کو مار دیتے ہیں
کوئی سوچے خدا سے ان کو اسلم کتنی الفت ہے
خدا کے نام پر اہلِ خدا کو مار دیتے ہیں
اسلم گورداسپوری
No comments:
Post a Comment