Sunday, 31 July 2022

وہ ہٹا رہے ہیں پردہ، سر بام چپکے چپکے

 وہ ہٹا رہے ہیں پردہ، سر بام چُپکے چُپکے

میں نظارہ کر رہا ہوں، سر شام چپکے چپکے

یہ جھکی جھکی نگاہیں، یہ حسیں حسیں اشارے

مجھے دے رہے ہیں شاید، یہ پیام چپکے چپکے

نہ دکھاؤ چلتے چلتے، یوں قدم قدم پہ شوخی

کوئی قتل ہو رہا ہے، سر عام چپکے چپکے

کبھی شوخیاں دکھانا، کبھی ان کا مسکرانا

یہ ادائیں کر نہ ڈالیں میرا کام چپکے چپکے

ذرا ہوش یار اے دل، کہیں ڈھا نہ دے قیامت

اس صدائے کافری کا یہ سلام چپکے چپکے

یہ جو ہچکیاں مسلسل مجھے آ رہی ہیں عالم

کوئی لے رہا ہے شاید میرا نام چپکے چپکے


عالم لکھنوی

No comments:

Post a Comment