جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں
اور وہی ہیں دور نظر سے جو جانے پہچانے ہیں
زنجیروں کا بوجھ لیے ہیں بے دیوار کے زنداں میں
پھر بھی کچھ آواز نہیں ہے، کیسے یہ دیوانے ہیں
بچ بچ کر چلتے ہیں ہر دم شیشے کی دیواروں سے
کون کہے دیوانہ ان کو؟ یہ تو سب فرزانے ہیں
خود ہی بجھا دیتے ہیں شمعیں روشنیوں سے گھبرا کر
اس محفل میں اے لوگو! کچھ ایسے بھی پروانے ہیں
صیادوں نے، گُل چینوں نے، گلشن کو تاراج کیا
لیکن ہم دیوانوں سے آباد ابھی ویرانے ہیں
ان کا غم ہے اپنا غم ہے اپنے پرائے سب کا غم
شہرِ وفا میں پھر بھی فرحت اور کئی غم خانے ہیں
فرحت قادری
No comments:
Post a Comment