Thursday, 21 July 2022

جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں

 جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں

اور وہی ہیں دور نظر سے جو جانے پہچانے ہیں

زنجیروں کا بوجھ لیے ہیں بے دیوار کے زنداں میں

پھر بھی کچھ آواز نہیں ہے، کیسے یہ دیوانے ہیں

بچ بچ کر چلتے ہیں ہر دم شیشے کی دیواروں سے

کون کہے دیوانہ ان کو؟ یہ تو سب فرزانے ہیں

خود ہی بجھا دیتے ہیں شمعیں روشنیوں سے گھبرا کر

اس محفل میں اے لوگو! کچھ ایسے بھی پروانے ہیں

صیادوں نے، گُل چینوں نے، گلشن کو تاراج کیا

لیکن ہم دیوانوں سے آباد ابھی ویرانے ہیں

ان کا غم ہے اپنا غم ہے اپنے پرائے سب کا غم

شہرِ وفا میں پھر بھی فرحت اور کئی غم خانے ہیں


فرحت قادری

No comments:

Post a Comment