Thursday, 21 July 2022

اشک کو خون میں تحلیل کیا جا سکتا

 اشک کو خون میں تحلیل کیا جا سکتا

ہجر کا ذائقہ تبدیل کیا جا سکتا

آہ مجھ سے نہیں ڈھل پاتی کسی سانچے میں

درد مجھ سے نہیں تفصیل کیا جا سکتا

اب بھی موجود ہیں اِس در میں ہزاروں منظر

اور اگر آنکھ کو زنبیل کیا جا سکتا

دشت میں خاک کی صورت سے ہوا ہے ممکن

ورنہ کب آئینہ تشکیل کیا جا سکتا

ابھی لوٹا ہوں مگر رہگزرِ زیست سے میں

یہ سفر اور بھی کچھ مِیل کیا جا سکتا

کیسا شہکار صحیفہ ہے کہ جس میں تا حشر

ایک نقطہ نہیں تبدیل کیا جا سکتا

اس جہاں کی جو کوئی اصل کو پاتا آزر

اک جہاں اور بھی تشکیل کیا جا سکتا


دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment