اشک کو خون میں تحلیل کیا جا سکتا
ہجر کا ذائقہ تبدیل کیا جا سکتا
آہ مجھ سے نہیں ڈھل پاتی کسی سانچے میں
درد مجھ سے نہیں تفصیل کیا جا سکتا
اب بھی موجود ہیں اِس در میں ہزاروں منظر
اور اگر آنکھ کو زنبیل کیا جا سکتا
دشت میں خاک کی صورت سے ہوا ہے ممکن
ورنہ کب آئینہ تشکیل کیا جا سکتا
ابھی لوٹا ہوں مگر رہگزرِ زیست سے میں
یہ سفر اور بھی کچھ مِیل کیا جا سکتا
کیسا شہکار صحیفہ ہے کہ جس میں تا حشر
ایک نقطہ نہیں تبدیل کیا جا سکتا
اس جہاں کی جو کوئی اصل کو پاتا آزر
اک جہاں اور بھی تشکیل کیا جا سکتا
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment