Thursday 21 July 2022

ہماری آرزو نے تو ہمیشہ تشنگی کو زیب تن رکھا

 ہمیشہ تشنگی کو زیبِ تن رکھا


تمہیں ہم نے بتایا تھا

تمنا کے سُبک قدموں سے رستے طے نہیں ہوتے

مگر تم کو ہماری بات پر ایمان ہی کب تھا

ہمی تھے

جو تمہاری انکہی باتوں کا بھی ادراک رکھتے تھے

یہ ہم تھے

جو تمہارے لفظ کی حُرمت کو

دل کی رحل میں رکھ کر

دعائے نیم شب کے ساتھ پڑھتے تھے

مگر شاید ہماری سب مناجاتیں

تمہارے دل کی بے روزن سماعت تک نہیں پہنچیں

پھر ایسا تھا

تمہارے پاس جتنے زخم تھے

سب ہم کو دے ڈالے

یہ زخموں کی قبا بھی خوب تھی

جب بھی تمہاری یاد کے جھونکے

اسے چُھو کر گزرتے تھے

تو یہ تن سے چپکتی تھی

مگر ہم نے

کبھی زخموں پہ مرہم تک نہیں رکھا

ہماری آرزو نے تو

ہمیشہ تشنگی کو زیب تن رکھا


سلمان باسط

No comments:

Post a Comment