مِرے خدا! تو مِری قوم پر کرم کر دے
کہ اپنے غیب سے دشمن کا سر قلم کر دے
اُتر گئی ہے یہاں کی عوام سڑکوں پر
کہیں نہ قصرِ حکومت کو منہدم کر دے
معاف تجھ کو اسی شرط پر کریں گے ہم
تُو آ کے پیروں میں گِر جا سر اپنا خم کر دے
یہ ملک میرا تھا، میرا ہے، میرا ہی ہو گا
تُو چاہے جتنا، زمیں میرے حق میں کم کر دے
سنبھل کے رہنا دِوانوں کا قافلہ ہے یہ
کہیں یہ بھیڑ تِری ناک میں نہ دم کر دے
اسی لیے تو کبھی منکشف نہیں ہوتا
غمِ رئیس جو آنکھیں تمہاری نم کر دے
رئیس احمد
No comments:
Post a Comment