وہ بے وفا ہمیشہ سے عادی دغا کا تھا
لیکن مِرے خمیر میں عنصر وفا کا تھا
اک ہم نہیں تھے اس کے طلبگار شہر میں
عاشق امیرِ شہر بھی قاتل ادا کا تھا
دنیا کے حادثات میرا کیا بگاڑتے
ہر پل میرے وجود پہ سایہ خدا کا تھا
میرے ضمیر نے نظر انداز کر دیا
میرا بھی ورنہ آج ارادہ جفا کا تھا
میری نگاہِ شوق تو جامد سی ہو گئی
اس کے جمال و حسن کا پیکر بلا کا تھا
کتنے درخت پتوں سے محروم ہو گئے
کہنے کو کہہ دیا ہے کہ جھونکا ہوا کا تھا
ظالم نے جال چار سُو میرے بچھایا تھا
لیکن مجھے تو آسرا اپنے خدا کا تھا
سینے میں اب تو دل بھی نہیں درد بھی نہیں
محتاج میں تو برسوں سے تیری دوا کا تھا
کل دھیمی دھیمی آہٹیں آئیں تمام رات
"انداز ہو بہو تیری آوازِ پا کا تھا"
اب تو تیرے کرم کی بھی چاہت نہیں رہی
مانوس ورنہ پہلے تو تیری جفا کا تھا
اشہر نے اپنی زندگی کر دی تمہارے نام
اس کا یہ بے مثال عمل ہی وفا کا تھا
اشہر اشرف
No comments:
Post a Comment