Wednesday, 20 July 2022

یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ

 یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ

ہر ایک شخص کہے ہے کہا ہوا سا کچھ

وہ گہرے گہرے سبھی زخم بھر گئے جب سے

نیا سا درد لگے ہے سہا ہوا سا کچھ

یہ تیز و تند ہوائیں اڑا ہی لے جائیں

اگر بچا کے نہ رکھوں بچا ہوا سا کچھ

کراہنے کی صدائیں بھی اب نہیں آتیں

تمام شہر لگے ہے ڈرا ہوا سا کچھ

ہر ایک لاش میں کچھ خواب سانس لیتے ہوئے

ہر اک وجود میں جیسے مَرا ہوا سا کچھ

یہ خوف ہے کہیں آتش فشاں نہ بن جائے

ہمارے پاؤں کے نیچے دبا ہوا سا کچھ


راشد جمال فاروقی

No comments:

Post a Comment