دریافت
بادل چپ تھے، جھرنے چپ تھے
شجر و حجر خاموش کھڑے تھے
پتوں کی آغوش میں بیٹھی
ننھی سی اک کونپل بولی
فطرت کی آواز ہو تم بھی
کھیل کا آغاز ہو تم ہی
عہدِ ازل کے وارث تم ہو
مالکِ کُل کے نائب تم ہو
خاک سے تم نے خمیر اُٹھایا
رُوح کا عرفاں تم نے پایا
فطرت کا مرکز ہے انساں
فطرت ہے خدمت پہ نازاں
لیکن تم نے عہد بھُلایا
دُنیا رکھی، دِین گنوایا
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
بننے چلے ہیں مردِ سکندر
پہننے کو ہے ریشم و مخمل
بچھونا فرش کا، سنگِ مرمر
سب کچھ اعلیٰ، سب کچھ کامل
لیکن پھر بھی چین ندارد
خاک کے پُتلے، خاک کے خوگر
کھوجو اس کو، سوچو اس کو
خاک سے کیوں تم دور ہوئے ہو؟
کیوں اتنے مغرور ہوئے ہو؟
تیری دنیا کا یہی حاصل
خاک کے اندر، خاک سے باہر
تنزیلہ افضل
No comments:
Post a Comment