اے دوست! دردِ دل کا مداوا کِیا نہ جائے
وعدہ اگر کِیا ہے، تو ایفاء کیا نہ جائے
آنے لگے ہیں وہ بھی عیادت کے واسطے
اے چارہ گر! مریض کو اچھا کیا نہ جائے
مجبوریوں کے راز نہ کُھل جائیں بعد مرگ
قاتل! ہمارے قتل کا چرچا کیا نہ جائے
آئے گی اپنے لب پہ تو ہو گی پرائی بات
لازم ہے رازِ دل کبھی افشاء کیا نہ جائے
وہ خود ہی جان لیں گے مِرے دل کا مُدعا
بہتر یہی ہے عرضِ تمنا کیا نہ جائے
حمید جالندھری
No comments:
Post a Comment