لالچ
میرے اجداد کاعقیدہ آواگون تھا
میں پچھلے جنم میں ساگوان تھا
مجھ سے چھپّر بنا
نُوحؑ کی کشتی بنی
میں نے سائے کو جنم دیا
اب بڑھئی ہوں
کُرسی، جس کی جنگ جاری ہے
میری ایجاد ہے
چکلا، بیلن، پٹرا
ماں نے دریافت کیے
پلنگ بنانے کی بشارت
نانا کو خواب میں ہوئی
پھر اسے میرے باپ سے منسوب کر دیا گیا
اس نے نفی میں سر ہلایا
دادانے دو نالی بندوق نکال لی
دادی نے ڈولی بنانے کا حکم صادر کیا
ناک، کان چھید کر
ماں کو ڈولی میں ڈال دیا گیا
باپ نے اسے ڈولی میں حاملہ کیا
پھر میں پیدا ہوا
کھیتی باڑی، ہل ماں سے چھین لیے گئے
چولہا، ہانڈی اور چاردیواری کی سزا دی گئی
اپنی محبوبہ سے مباشرت کے لیے
باپ نے پل بنایا
محبت کرنے کے جرم میں
باپ پر جنگ مسلط کر دی گئی
جب میرا رزق ختم ہوا
میں نے اپنی قبر خود کھودی
ملک الموت کو چِٹھی لکھی
میں نے سمندر کو کبھی آواز نہیں دی
وہ خود میرے آنگن میں آ گیا
"اٹھو! چلو! رزق تمہارا منتظر ہے"
میں مچھیرا بن گیا
مچھیرا بننے کے لیے
ایک بنسی
ایک جال
ایک کشتی اور
٭طعمہ کی ضرورت پڑتی ہے
میں نے اپنی بچی ہوئی لکڑی سے
ایک کشتی بنائی
بنسی اور طعمہ
ایک بوسے کے عوض
محبوبہ سے اینٹھ لیے
جال جو اس کے گرد بچھایا تھا
باہمی رضامندی سے اس نے لوٹا دیا
کشتی کھلے میں پہنچی
ہتھیلی جتنی مچھلی پھنسی
میں نے اسے سمندر سے نکال لیا
وہ کشتی پر تڑپ تڑپ کر رونے لگی
میں بہت چھوٹی مچھلی ہوں
تمہارے منہ کی بدبو بھی نہیں بدل سکتی
مجھے چھوڑ دو
میری سانس رک رہی ہے
میرے پیچھے ایک بڑی مچھلی ہے
میرے دل میں حاتم طائی موجزن تھا
میں نے مچھلی کو سمندر میں اچھال دیا
وہ خوشی سے مر گئی
انتظار طویل ماں کی آنکھ
یہ میری پسندیدہ گالی تھی
بنسی میں جنبش ہوئی
بالش بھر مچھلی کشتی پر تڑپنے لگی
میں چھوٹی مچھلی ہوں
تمہارے کنبے کا پیٹ نہیں بھر سکتی
مجھے چھوڑ دو
میرے پیچھے ایک بڑی مچھلی ہے
مچھلیاں بڑی ہوتی جا رہی تھیں
دردناک کہانیاں
کربناک ہوتی جا رہی تھیں
اچانک اندھیرا چھا گیا
دم گھٹنے لگا
اب میں دیوہیکل وہیل کے پیٹ میں ہوں
دعائے یونس بھول گیا ہوں
وجیہہ وارثی
Bait ٭طُعمہ: خوراک/مچھلی کو پکڑنے کا چارہ
No comments:
Post a Comment