گریز کیجیے مت، دل دُکھائیے صاحب
ہمیں نہ در سے جھِڑک کر اٹھائیے صاحب
ابھی نہ کیجیے بیدار، ابھی تو سوئے ہیں
ابھی نہ سوئے ہوؤں کو جگائیے صاحب
ابھی ابھی مِرے قدموں میں سانپ تھا کوئی
دعا نہ کیجیۓ،۔ پانی پلائیے صاحب
چلے چلیں گے اگر آپ کا ارادہ ہوا
چلے چلیں گے ہمیں جب بُلائیے صاحب
نظر نظر کی شریکِ حیات ہو جائے
نظر نظر سے کچھ ایسے ملائیے صاحب
فضل عباس
No comments:
Post a Comment