ٹھوکریں کھا کر اگر شخص سنبھل جاتا ہے
بات کرتا ہے تو اندر سے بدل جاتا ہے
شام کو آتا ہے تھک ہار کے گھر کا وارث
صبح ہوتی ہے تو پھر گھر سے نکل جاتا ہے
خواب آنکھوں سے چرا لیتی ہے غربت سارے
خواہشیں، بھوک کا آسیب نگل جاتا ہے
بعض اوقات چھپی ہوتی ہے چنگاری اس میں
راکھ چھانیں گے تو پھر ہاتھ بھی جل جاتا ہے
عمر لگ جاتی ہے اک پیڑ اُگاتے آغا
اور موسم پہ کسی اور کو پھل لگ جاتا ہے
جاوید آغا
No comments:
Post a Comment