بلا عنوان
میں تو شاید ان پرندوں کے نام بھی بھول چکی ہوں
جو میرے کھلیانوں میں لگے اناج اور بھوسے کے ڈھیروں پر
اٹکھیلیاں کرتے کرتے لوٹ پوٹ ہو جایا کرتے تھے
یا پھر چھتوں پر
ایک دوسرے سے چونچ لڑاتے ہوئے نیچے آن گرتے
شاید وہ سب ہمیں تیاگ چکے ہیں
لیکن
موسم کے آخری حصے میں، میں تو
کھیت میں جمی کھڑی ہوں
گلیاں سفید برّاق لبادے اوڑھے کس کی منتظر ہیں
دور سے آتی باس تو ان گلدستوں کی ہے جنہیں
فراموش کر دیا گیا تھا
میرے وطن کی زمین پر
ناموں کی ٹوٹی ہوئی تختیاں پڑی ہیں
اور جو لفظ بھی بوئے جا رہے ہیں
وہ میرے لیے تو بالکل اجنبی ہیں
فطرت سوہان
No comments:
Post a Comment