Thursday, 1 September 2022

شاہان جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


شاہانِ جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں

کیا بزم میں طیبہ کے گدا آئے ہوئے ہیں

ہنگامۂ محشر میں کہاں حبس کا خدشہ

گیسُو شہِؐ کونین کے لہرائے ہوئے ہیں

حاجت نہیں جنبش کی یہاں اے لبِ سائل

وہ یوں بھی کرم حال پہ فرمائے ہوئے ہیں

یہ شہرِ مدینہ ہے کہ ہے اک کشش آباد

محسوس یہ ہوتا ہے کہ گھر آئے ہوئے ہیں

ایثار و مساوات و مُؤاخات و تواضع

یہ پھول سبھی آپؐ کے مہکائے ہوئے ہیں

کل اپنی عنایت سے نہ رکھیں ہمیں محروم

کچھ بھی ہیں مگر آپؐ کے کہلائے ہوئے ہیں

یا شاہِؐ اُممﷺ! ایک نظر ان کی طرف بھی

دامانِ تمنا کو جو پھیلائے ہوئے ہیں

خورشیدِ جہانتاب ہو، یا ماہِ شب افروز

دونوں تِرے چہرے سے ضیا پائے ہوئے ہیں

ملتی نہیں دل کو کسی پہلو بھی تسلی

لمحات حضوری ہیں کہ تڑپائے ہوئے ہیں

اس وقت نہ چھیٹر اے کششِ لذتِ دنیا

اِس وقت مِرے دل کو وہ یاد آئے ہوئے ہیں

سلطانِ دو عالمﷺ کی عطا اور یہ عاصی

کچھ لوگ تو اس بات پہ چکرائے ہوئے ہیں

حاوی ہے فلک کلیتاً جیسے زمیں پر

اس طرح مِرے ذہن پہ وہ چھائے ہوئے ہیں

جنت کی فضائیں انہیں بہلا نہ سکیں گی

جو آپؐ کی گلیوں کی ہوا کھائے ہوئے ہیں

بن جائے گی محشر میں نصیر اب تِری بگڑی

سرکارؐ، شفاعت کے لیے آئے ہوئے ہیں


سید نصیرالدین نصیر 

No comments:

Post a Comment