محبت ایسے ہوتی ہے (اسرار محبت)
محبت ایسے کرتے ہیں
محبت یوں نہیں کرتے
محبت یوں نہیں ہوتی
محبت ایسے کرتے ہیں
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے سبزہ و گُل پہ
خُنک راتوں میں ہولے سے
شبنم آ ٹھہرتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے خُوشنما تتلی
کسی خُوشرنگ صبح کو
طوافِ گُل کو جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے خُوش خرامی سے
نسیمِ صبح گُلشن سے
چُرا کے خُوشبو لاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے بلبلِ شیریں
کسی شاداب ٹہنی پہ
کوئی نغمہ سُناتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے وادئ گُل میں
محوِ رقص پھولوں میں
بھنورا گُنگناتا ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے جاں فزا خُوشبو
دھیرے دھیرے چُپکے سے
فضا میں پھیل جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے سُرمئی بادل
چمکتے گرم سورج کو
آ کے ڈھانپ لیتا ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے خوش گلو گائیک
نغمہ و غزل کوئی
دھیمے سُر میں گاتا ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے ساز کی تاریں
کبھی مِضراب سے یونہی
مطرب چھیڑ دیتا ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے دامنِ کوہ میں
بہت شفاف و پاکیزہ
جوئے آب بہتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے رحمتِ باراں
پھوارِ نرم کی صورت
تسلسل سے برستی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے چاند راتوں میں
اپنے چاند کی جانب
چکوری سفر کرتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے چاند کی مُورت
کبھی ندیا کے پانی میں
اُبھر کے ڈُوب جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے ضوئے مہتابی
بِنا حِدّت فضاؤں کو
منور کرتی جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے کوئی چنگاری
جلتی ہے نہ بُجھتی ہے
بس سُلگتی جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جیسے شمع جلتی ہے
کسی کی یاد میں آنسو
ساری شب بہاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
محبت ایسے کرتے ہیں
جنابِ مظہری صاحب
محبت کی نہیں جاتی
محبت ہو ہی جاتی ہے
محبت ایسے ہوتی ہے
ضیاء المظہری
No comments:
Post a Comment