Tuesday, 20 September 2022

بجھی نہیں تھی نئی آگ اک لگائی گئی

بجھی نہیں تھی، نئی آگ اک لگائی گئی

وفا کے بھیس میں ہم سے جفا نبھائی گئی

میری غزل کا مخاطب بھی حشر ساماں تھا

پھر اس پہ یہ کہ، اسے روبرو سنائی گئی

یہ خونِ حیدرؑ کرار کا کرشمہ تھا

یہ دیں کی ناؤ کنارے پہ جو لگائی گئی

قدم قدم پہ مجھے موت اِک مقابل تھی

یہی تھی زندگی جو زندگی بتائی گئی

یہ جرم عشق کا جس سے بھی ارتکاب ہوا

پھر عمر قید کی اُس کو سزا سنائی گئی

ہوا کے دوش پہ لکھ کر سلام بھیجا ہے

قبولیے کہ میرے بس کی ہر رسائی گئی

وہ ایک شخص جو ہاتھوں سے میرے کیا نکلا

لگا کہ ہاتھ سے جیسے کہ کُل کمائی گئی

یہ شعر شعر بھی غم کا نچوڑ تھا شائق

اگرچہ یار یہ سمجھے غزل سنائی گئی


امتیاز احمد شائق

No comments:

Post a Comment