ہے یوں بشر کے ساتھ مقدر لگا ہوا
کتے کے پیچھے جیسے ہو پتھر لگا ہوا
وہ شخص ہے کوئی بڑا افسر لگا ہوا
مکھن ہے جس کو پورا کنستر لگا ہوا
اس نے مجھے خدائے مجازی نہیں کہا
روزِ ازل سے جس کا ہوں شوہر لگا ہوا
کالج میں لیکچرر ہے تو بیکار شخص ہے
چونگی‘ میں ہے کلرک تو بہتر لگا ہوا’
ایٹم کی جنگ چھیڑ نہ دیں سُپر طاقتیں
آدم کو آج کل ہے یہی ڈر لگا ہوا
چیزوں کی قیمتیں ہیں برابر چڑھی ہوئی
بازار جمعہ‘ بھی ہے برابر لگا ہوا’
سینے سے یوں لگائے ہوئے ہوں کسی کی یاد
جیسے پرانے کوٹ میں استر لگا ہوا
واعظ! تِری جبیں پہ جو کالا نشان ہے
ویسا نشان ہے مِرے دل پر لگا ہوا
یوں صاحبو ہمارے تعاقب میں ہے خزاں
دارا کے پیچھے جیسے سکندر لگا ہوا
بنگلہ نہیں، پلاٹ نہیں کار بھی نہیں
کہنے کو سرفراز ہے افسر لگا ہوا
سرفراز شاہد
No comments:
Post a Comment