Saturday, 3 September 2022

ہے یوں بشر کے ساتھ مقدر لگا ہوا

 ہے یوں بشر کے ساتھ مقدر لگا ہوا

کتے کے پیچھے جیسے ہو پتھر لگا ہوا

وہ شخص ہے کوئی بڑا افسر لگا ہوا

مکھن ہے جس کو پورا کنستر لگا ہوا

اس نے مجھے خدائے مجازی نہیں کہا

روزِ ازل سے جس کا ہوں شوہر لگا ہوا

کالج میں لیکچرر ہے تو بیکار شخص ہے

چونگی‘ میں ہے کلرک تو بہتر لگا ہوا’

ایٹم کی جنگ چھیڑ نہ دیں سُپر طاقتیں

آدم کو آج کل ہے یہی ڈر لگا ہوا

چیزوں کی قیمتیں ہیں برابر چڑھی ہوئی

بازار جمعہ‘ بھی ہے برابر لگا ہوا’

سینے سے یوں لگائے ہوئے ہوں کسی کی یاد

جیسے پرانے کوٹ میں استر لگا ہوا

واعظ! تِری جبیں پہ جو کالا نشان ہے

ویسا نشان ہے مِرے دل پر لگا ہوا

یوں صاحبو ہمارے تعاقب میں ہے خزاں

دارا کے پیچھے جیسے سکندر لگا ہوا

بنگلہ نہیں، پلاٹ نہیں کار بھی نہیں

کہنے کو سرفراز ہے افسر لگا ہوا


سرفراز شاہد

No comments:

Post a Comment