اور کب تک خوں فشاں موسم کا تیور دیکھنا
آگ برساتی نظر ہاتھوں میں خنجر دیکھنا
چھین کر آنکھوں سے بینائی نہ لے جائے کہیں
ہر طرف جلتی ہوئی لاشوں کا منظر دیکھنا
آگ جب پھیلی تو ہمسائے کا گھر بھی جل گیا
اس نے چاہا تھا مِرا جلتا ہوا گھر دیکھنا
اب کفِ افسوس کیا ملتا ہے ہم کہتے نہ تھے
پاؤں پھیلانے سے پہلے اپنی چادر دیکھنا
اب تو کنکر بھی گُہر کے دام میں بکنے لگے
کوڑیوں کے مول اب لعل و جواہر دیکھنا
ماہ و انجم ہو چکے تسخیر فرحت!، اب ذرا
ذات کے اندھے کنویں میں بھی اُتر کر دیکھنا
خلیل فرحت کارنجوی
No comments:
Post a Comment