کہاں تیر و کماں کب نیزہ و خنجر بناتا ہوں
فقط میں آشتی، اور امن کے گوہر بناتا ہوں
یہاں جمہوریت میں بھی تماشا خوب ہوتا ہے
جنہیں چلنا نہیں آتا، انہیں رہبر بناتا ہوں
جسے محسوس کرتا ہوں اسے میں چُھو نہیں سکتا
خیالوں میں فقط اس کا حسیں پیکر بناتا ہوں
کھلے آکاش کے نیچے مجھے جب نیند آتی ہے
تِری یادوں کو چادر، خواب کو بستر بناتا ہوں
فریبِ دوستاں سے دل کبھی جب ٹوٹ جاتا ہے
میں اپنے قتل کی خاطر کوئی خنجر بناتا ہوں
فلک پیما عمارت کی کوئی حسرت نہیں مجھ کو
میں کاغذ پر لکیریں کھینچ کر ایک گھر بناتا ہوں
خورشید اکرم سوز
No comments:
Post a Comment