عشق کی بُھول بُھلیاں، کبھی کام کرتے کرتے
اپنی تو کٹ رہی ہے صبح کو شام کرتے کرتے
خدا کے واسطے سنبھال آنکھیں، حد ہو گئی ہے
تیرا دل نہیں بھرا اب تک قتلِ عام کرتے کرتے
محفل میں چھیڑا کسی نے میرا ذکر شرارتاً
وہ بھی چُپ ہو گئے دفعتاً کلام کرتے کرتے
کوئی بتلائے اتارتے ہیں کیسے اس کا بُھوت
تھک جائے جو کوئی عشق کا احترام کرتے کرتے
ذکر منافقت کا نہ کیجیو احباب کے سامنے
میں نے کیا تھا چھوڑ گئے تمام کرتے کرتے
تجھے بُھلانے میں لگا ہوں، کچھ وقت لگے گا
وقت خدا نے بھی دیا تھا نشہ حرام کرتے کرتے
پتہ ہی گھر کا یاد نہ خبر اپنی کوئی مُدت سے
میں تو آرام سے گیا ہوں تجھے رام کرتے کرتے
تیرا وعدہ تھا بلاؤں گا چائے پہ کسی شام
وفا نہ ہوا وعدہ ہوئی زندگی کی شام کرتے کرتے
بِکا تھا جسم رُوح نہیں، سُن کے گالیاں چُپ رہا
یونہی کھا گیا غیرت اپنی غلام کرتے کرتے
شوقِ منزل بھی قائم یہ بھی جانتا ہوں میں
سفر میں گردِ سفر ہوئے کتنے نام کرتے کرتے
میرا ایمان مکمل وَ تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاءُ
منہ کے بل گرے کئی لوگ مجھے بدنام کرتے کرتے
آفتاب چکوالی
No comments:
Post a Comment