جانے والے نے کبھی مڑ کے جو دیکھا ہوتا
لوٹ آنے کا ہمیں کوئی بھروسہ ہوتا
مجھ سے کرتا نہ کوئی بات بچھڑنے والی
مِرے جذبوں کو اگر اس نے بھی سمجھا ہوتا
یہ تو معلوم تھا، اک روز چلا جائے گا
گر بتا کر وہ چلا جاتا, تو اچھا جاتا
اس کو پڑھ کر وہ کوئی پل کے لیے رک جاتا
کسی در پر جو مِرے نام کا کتبہ ہوتا
میں سمو لیتا تمہیں خود میں سمندر کی طرح
تُو بیاباں یا کوئی آگ کا دریا ہوتا
پھر تو ہونا تھا اندھیرا ہی اندھیرا ہر سُو
رب نے جو نورِ محمدﷺ نہ اتارا ہوتا
دربدر پھرتا نہ دنیا میں میں یتیموں کی طرح
سر پہ ماں باپ کی شفقت کا جو سایہ ہوتا
میں نے مانا کہ کٹھن تھا یہ بھی رستہ لیکن
میں جو اب کے بھی نہ آتا، اسے صدمہ ہوتا
وہ مسرت سے خفا ہوتا ہے جانے کیوں کر
کہیں ملتا تو بڑے مان سے پوچھا ہوتا
مسرت عباس ندرالوی
No comments:
Post a Comment